عیاں ہے اُن کی

غزل
عیاں ہے اُن کی حقیقت ہر ایک پر پھر بھی
وہ ڈھا رہے ہیں ستم پر ستم مگر پھر بھی
ہمیں یہ ضد کہ جلائیں گے ہم چراغِ وفا
ہوا اگرچہ موافق نہیں مگر پھر بھی
قضا کا وقت ہو یا سامنے قیامت ہو
لگا سکیں تو لگا دیجیے شجر پھر بھی
کہیں سے بھی نہیں ملتی مجھے خبر تیری
ہزار خود کو میں رکھتا ہوں با خبر پھر بھی
تمھاری راہ تکوں گا میں آخری دم تک
میں جانتا ہوں نہ آؤ گے تم اِدھر پھر بھی
معاشرے کی بھی اصلاح کی کرو کوشش
ہوا کی زد میں نہیں ہے تمھارا گھر پھر بھی
قفس سے اُڑنے کی کوشش تو کر رہا ہے پرند
نہیں ہے سامنے کوئی رہِ مفر پھر بھی
ہم اُن کی بات پہ کر لیتے ہیں یقیں راغبؔ
ہمیں یقیں ہے کہ جائیں گے وہ مُکر پھر بھی
جون ۲۰۱۱ء طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *