پہلے لٹا دے ان پہ دل و جان بے دریغ
پھر سوچ مت اٹھائے جا نقصان بے دریغ
مٹ جائے ایک دن نہ ہر اِک آرزو کہیں
اِس طرح مت نکالیے ارمان بے دریغ
لے لو قسم نہ نکلے گی اُف بھی زبان سے
کر دو تباہ مجھ کو مِری جان بے دریغ
رکھیے مِرے حضور ادائیں سنبھال کر
اِن پر لٹا نہ دوں میں کہیں جان بے دریغ
بخشیں گے کب بھلا مجھے تیری گلی کے لوگ
سب پر لگا رہے ہیں وہ بہتان بے دریغ
دو چار دن کی عزّت و شہرت کے واسطے
کچھ لوگ بیچ دیتے ہیں ایمان بے دریغ
ستمبر ۲۰۱۲ء غیر طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت