پڑے ہیں راہ میں کچھ دل بھی دیکھ بھال کے چل
چلا جو حشر میں میں سن کے آمد جاناں
یہ اضطراب پکارا کہ دل سنبھال کے چل
ارے یہ حشر میں ہیں سینکڑوں ترے مشتاق
یہاں پہ ہم بھی ہیں راضی نقاب ڈال کے چل
عدم کا قصد ہے بحر جہاں سے گر جاوید
حساب دار زمانہ کو دیکھ بھال کے چل
جاوید لکھنوی