سلسلہ چھڑ گیا جب یاس کے افسانے کا

سلسلہ چھڑ گیا جب یاس کے افسانے کا
شمع گل ہو گئی دل بجھ گیا پروانے کا

عشق سے دل کو ملا آئنہ خانے کا شرف
جگمگا اٹھا کنول اپنے سیہ خانے کا

خلوت ناز کجا اور کجا اہل ہوس
زور کیا چل سکے فانوس سے پروانے کا

لاش کم بخت کی کعبے میں کوئی پھکوا دے
کوچۂ یار میں کیوں ڈھیر ہو پروانے کا

وائے حسرت کہ تعلق نہ ہوا دل کو کہیں
نہ تو کعبے کا ہوا میں نہ صنم خانے کا

تشنہ لب ساتھ چلے شوق میں سائے کی طرح
رخ کیا ابر بہاری نے جو مے خانے کا

واہ کس ناز سے آتا ہے ترا دور شباب
جس طرح دور چلے بزم میں پیمانے کا

اہل دل مست ہوئے پھیل گئی بوئے وفا
پیرہن چاک ہوا جب ترے دیوانے کا

سر شوریدہ کجا عشق کی بیگار کجا
مگر اللہ رے دل آپ کے دیوانے کا

دیکھ کر آئنے میں چاک گریباں کی بہار
اور بگڑا ہے مزاج آپ کے دیوانے کا

کیا عجب ہے جو حسینوں کی نظر لگ جائے
خون ہلکا ہے بہت آپ کے دیوانے کا

آپ اب شمع سحر بڑھ کے گلے ملتی ہے
بخت جاگا ہے بڑی دیر میں پروانے کا

دل بے حوصلہ تکتا ہے خریدار کی راہ
کوئی گاہک نہیں ٹوٹے ہوئے پیمانے کا

بزم میں صبح ہوئی چھا گیا اک سناٹا
سلسلہ چھڑ گیا جب آپ کے افسانے کا

یاس یگانہ چنگیزی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *