کہیں دریا سے دریا مل رہا ہے
لباس ابر نے بھی رنگ بدلا
زمیں کا پیرہن بھی سل رہا ہے
اسی تخلیق کی آسودگی میں
بہت بے چین میرا دل رہا ہے
کسی کے نرم لہجے کا قرینہ
مری آواز میں شامل رہا ہے
میں اب اس حرف سے کترا رہی ہوں
جو میری بات کا حاصل رہا ہے
کسی کے دل کی ناہمواریوں پر
سنبھلنا کس قدر مشکل رہا ہے
یاسمین حمید