اب کسی طور ترے بن نہیں رہنا پاگل

اب کسی طور ترے بن نہیں رہنا پاگل
سوچ رکھا ہے تجھے کچھ نہیں کہنا پاگل
اب مرے دکھ میں تو پہلے سے کمی آئی ہے
پر مجھے اور ترا دکھ نہیں سہنا پاگل
ڈوبنا ہے تو اترنا ہے ترے اندر تک
مجھ کو یوں ہی تو نہیں موج میں بہنا پاگل
میں، مری روح، مرا دل تو رہا کرتا تھا
اب تو رہتا ہے تری یاد میں گہنا پاگل
اپنے انداز بدلنے سے ہے تم کو بھی گریز
مجھ کو بھی اور زیادہ نہیں رہنا پاگل
اب ستاتے ہیں وہ ماضی کے جھروکے بھی ربابؔ
وہ مرے کان میں آکر ترا کہنا ’’پاگل‘‘
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *