میں کلی جیسی ہوں پر خار سمجھتے ہیں مجھے

میں کلی جیسی ہوں پر خار سمجھتے ہیں مجھے
لوگ مجرم یہاں ہر بار سمجھتے ہیں مجھے
صاف ظاہر ہے کہ وہ خوف زدہ ہیں مجھ سے
اپنے فن کا بھی جو انکار سمجھتے ہیں مجھے
خواب اس واسطے آنکھوں سے پلٹ جاتے ہیں
سو بھی میں جاؤں تو بیدار سمجھتے ہیں مجھے
میں تو بس ایک جھلک ہی کے لیے آئی ہوں
آپ تو یوں ہی خطاوار سمجھتے ہیں مجھے
شہر والوں نے ہے مطلب بھی نکالا مجھ سے
اور ستم دیکھیے بے کار سمجھتے ہیں مجھے
اب کبھی ضبط بھی ملنے نہیں آتا مجھ سے
سب جنوں کا ہی طرفدار سمجھتے ہیں مجھے
آپ کو کیسے بتاؤں کہ وہی ہاں ہے مری
کیوں اسی شخص کا انکار سمجھتے ہیں مجھے
ظلم پر میں نے ربابؔ اب ہے اٹھائی آواز
اس لیے ہی سبھی غدار سمجھتے ہیں مجھے
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *