روزنِ فکر کے بیچ اور

روزنِ فکر کے بیچ اور مری بات کے بیچ
سلسلہ وار اُتر آ تُو مری ذات کے بیچ
وہ جسے عمرِ مسلسل سے نفی تُو نے کیا
اب تلک بکھرا پڑا ہوں میں اُسی رات کے بیچ
سوچتے کچھ ہوں، تجھے سوچنے لگ جاتے ہیں
آ دھمکتا ہے کہیں سے تُو خیالات کے بیچ
ایسے بے گھر ہیں مری جان تجھے کیا معلوم
ہم کہ رہ پائے نہیں اپنی ہی اوقات کے بیچ
جاہ و حشمت کا بھی، جا رعب کہیں اور جما!
ایسے آتے نہیں درویش محلات کے بیچ
چپ رہے کچھ نہ کہا اور تجھے تکتے رہے
جانے کیا تھا ترے بے ربط سوالات کے بیچ
اس لیے حوصلے ٹوٹے نہیں اب تک اپنے
جیت کو ڈھونڈتے رہتے ہیں کسی مات کے بیچ
رات بھر پھر تجھے رہ رہ کے جو یاد آتی رہی
دیکھ لے کچھ تو اثر تھا ناں مری بات کے بیچ
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *