آنکھ میں ہی ٹھہر گیا

آنکھ میں ہی ٹھہر گیا دریا
جونہی سر سے اتر گیا دریا
آنکھ کب تک سمیٹ کر رکھتی
ایک پل میں بکھر گیا دریا
کون اترا ہے تشنگی لے کر؟
ہائے لوگو! کدھر گیا دریا؟
شہر والوں میں شور برپا تھا
چپکے چپکے گزر گیا دریا
باعثِ بے گھری بنا یارو
جانے کس کس کے گھر گیا دریا
رات آنکھوں میں تھا قیام پزیر
اور وقتِ سحر گیا دریا
کتنا خاموش ہو گیا دیکھو
جانے کیسے سدھر گیا دریا!
پیاس جس کی تلاش میں گم تھی
زینؔ اُس کے شہر گیا دریا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *