ہے وہی بات جس میں ہو تہ بھی
حسن اے رشک مہ نہیں رہتا
چار دن کی ہے چاندنی یہ بھی
شور شیریں تو ہے جہاں میں ولے
ہے حلاوت زمانے کی وہ بھی
اس کے پنجے سے دل نکل نہ سکا
زور بیٹھی ہی یار کی گہ بھی
اس زمیں گرد میرے مہ سا نہیں
آسماں پر اگرچہ ہے مہ بھی
کیا کہوں اس کی زلف بن رو رو
میں پراگندہ دل گیا بہ بھی
مضطرب ہو جو ہمرہی کی میرؔ
پھر کے بولا کہ بس کہیں رہ بھی