چل قلم غم کی رقم کوئی حکایت کیجے

چل قلم غم کی رقم کوئی حکایت کیجے
ہر سرحرف پہ فریاد نہایت کیجے
گوکہ سر خاک قدم پر ترے لوٹے اس میں
اپنا شیوہ ہی نہیں یہ کہ شکایت کیجے
ہم جگر سوختوں کے جی میں جو آوے تو ابھی
دود دل ہوکے فلک تجھ میں سرایت کیجے
عشق میں آپ کے گذری نہ ہماری تو مگر
عوض جور و جفا ہم پہ عنایت کیجے
مت چلا عشق کی رہ کی کہ کہے ہے یاں خضر
آپھی گمراہ ہیں ہم کس کو ہدایت کیجے
کس کے کہنے کی ہے تاثیر کہ اک میرؔ ہی سے
رمز و ایما و اشارات و کنایت کیجے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *