خدا کرے کہ بتوں سے نہ آشنائی ہو

خدا کرے کہ بتوں سے نہ آشنائی ہو
کہ پھر موئے ہی بنے ہے اگر جدائی ہو
بدن نما ہے ہر آئینہ لوح تربت کا
نظر جسے ہو اسے خاک خود نمائی ہو
بدی نوشتے کی تحریر کیا کروں اپنے
کہ نامہ پہنچے تو پھر کاغذ ہوائی ہو
فرو نہ آوے سر اس کا طواف کعبہ سے
نصیب جس کے ترے در کی جبہ سائی ہو
ہماری چاہ نہ یوسفؑ ہی پر ہے کچھ موقوف
نہیں ہے وہ تو کوئی اور اس کا بھائی ہو
گلی میں اس کی رہا جا کے جو کوئی سو رہا
وہی تو جاوے ہے واں جس کسو کی آئی ہو
لب سوال نہ اک بوسے کے لیے کھولوں
ہزار مہر و محبت میں بے نوائی ہو
زمانہ یار نہیں اپنے بخت سے اتنا
کہ مدعی سے اسے ایک دن لڑائی ہو
جفا و جور و ستم اس کے آپ ہی سہیے
جو اپنے حوصلہ میں کچھ بھی اب سمائی ہو
ہزار موسم گل تو گئے اسیری میں
دکھائی دے ہے موئے ہی پہ اب رہائی ہو
چمکتے دانتوں سے اس کے ہوئی ہے روکش میرؔ
عجب نہیں ہے کہ بجلی کی جگ ہنسائی ہو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *