خوبی یہی نہیں ہے کہ انداز و ناز ہو

خوبی یہی نہیں ہے کہ انداز و ناز ہو
معشوق کا ہے حسن اگر دل نواز ہو
سجدے کا کیا مضائقہ محراب تیغ میں
پر یہ تو ہو کہ نعش پہ میری نماز ہو
اک دم تو ہم میں تیغ کو تو بے دریغ کھینچ
تا عشق میں ہوس میں تنک امتیاز ہو
نزدیک سوز سینہ سے رکھ اپنے قلب کو
وہ دل ہی کیمیا ہے جو گرم گداز ہو
ہے فرق ہی میں خیر نہ کر آرزوئے وصل
مل بیٹھیے جو اس سے تو شکوہ دراز ہو
جوں توں کے اس کی چاہ کا پردہ کیا ہے میں
اے چشم گریہ ناک نہ افشائے راز ہو
جوں چشم بسملی نہ مندی آوے گی نظر
جو آنکھ میرے خونی کے چہرے پہ باز ہو
ہم سے تو غیر عجز کبھو کچھ بنا نہ میرؔ
خوش حال وہ فقیر کہ جو بے نیاز ہو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *