دل جو ناگاہ بے قرار ہوا

دل جو ناگاہ بے قرار ہوا
اس سے کیا جانوں کیا قرار ہوا
شب کا پہنا جو دن تلک ہے مگر
ہار اس کے گلے کا ہار ہوا
گرد سر اس کے جو پھرا میں بہت
رفتہ رفتہ مجھے دوار ہوا
بستر خواب سے جو اس کے اٹھا
گل تر سوکھ سوکھ خار ہوا
مجھ سے لینے لگے ہیں عبرت لوگ
عاشقی میں یہ اعتبار ہوا
روز و شب روتے کڑھتے گذرے ہے
اب یہی اپنا روزگار ہوا
روؤں کیا اپنی سادگی کو میرؔ
میں نے جانا کہ مجھ سے یار ہوا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *