دل کی تہ کی کہی نہیں جاتی نازک ہے اسرار بہت

دل کی تہ کی کہی نہیں جاتی نازک ہے اسرار بہت
انچھر ہیں تو عشق کے دوہی لیکن ہے بستار بہت
کافر مسلم دونوں ہوئے پر نسبت اس سے کچھ نہ ہوئی
بہت لیے تسبیح پھرے ہم پہنا ہے زنار بہت
ہجر نے جی ہی مارا ہمارا کیا کہیے کیا مشکل ہے
اس سے جدا رہنا ہوتا ہے جس سے ہمیں ہے پیار بہت
منھ کی زردی تن کی نزاری چشم تر پر چھائی ہے
عشق میں اس کے یعنی ہم نے کھینچے ہیں آزار بہت
کہہ کے تغافل ان نے کیا تھا لیکن تقصیر اپنی ہے
کام کھنچا جو تیغ تک اس کی ہم نے کیا اصرار بہت
حرف و سخن اب تنگ ہوا ہے ان لوگوں کا ساتھ اپنے
منھ کرنے سے جن کی طرف آتی تھی ہم کو عار بہت
رات سے شہرت اس بستی میں میرؔ کے اٹھ جانے کی ہے
جنگل میں جو جلد بسا جا شاید تھا بیمار بہت
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *