دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا

دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا
جو کوئی دم ہے تو افسوس ہے جوانی کا
اگرچہ عمر کے دس دن یہ لب رہے خاموش
سخن رہے گا سدا میری کم زبانی کا
سبک ہے آوے جو مندیل رکھ نماز کو شیخ
رہا ہے کون سا اب وقت سرگرانی کا
ہزار جان سے قربان بے پری کے ہیں
خیال بھی کبھو گذرا نہ پر فشانی کا
پھرے ہے کھینچے ہی تلوار مجھ پہ ہر دم تو
کہ صید ہوں میں تری دشمنی جانی کا
نمود کر کے وہیں بحر غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میرؔ بھی اک بلبلا تھا پانی کا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *