دیتی ہے طول بلبل کیا شورش فغاں کو

دیتی ہے طول بلبل کیا شورش فغاں کو
اک نالہ حوصلے سے بس ہے وداع جاں کو
میں تو نہیں پر اب تک مستانہ غنچے ہو کر
کہتے ہیں مرغ گلشن سے میری داستاں کو
نالاں تو ہیں مجھی سے پر وہ اثر کہاں ہے
گو طائر گلستاں سیکھے مری زباں کو
کیا جانیے کہ کیا کچھ پردے سے ہووے ظاہر
رہتے ہیں دیکھتے ہم ہر صبح آسماں کو
اس چشم سرخ پر ہے وہ ابروئے کشیدہ
جوں ترک مست رکھ لے سر کے تلے کماں کو
میری نگاہ میں تو معدوم سب ہیں وے ہی
موجود بھی نہ جانا اس راہ سے جہاں کو
بعد از نماز تھے کل میخانے کے در اوپر
کیا جانے میرؔ واں سے پھر اٹھ گئے کہاں کو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *