عمر بھر ہم رہے شرابی سے

عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دل پر خوں کی اک گلابی سے
جی ڈھہا جائے ہے سحر سے آہ
رات گذرے گی کس خرابی سے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
برقع اٹھتے ہی چاند سا نکلا
داغ ہوں اس کی بے حجابی سے
کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ
ہم ہیں فارغ ہوئے شتابی سے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *