اب کے جو آئے سفر سے خوب مہمانی ہوئی
باؤلے سے جب تلک بکتے تھے سب کرتے تھے پیار
عقل کی باتیں کیاں کیا ہم سے نادانی ہوئی
لوہو پانی ایک دونوں نے کیا میرا ندان
یعنی دل لوہو ہوا سب چشم سب پانی ہوئی
کیا چھپا کچھ رہ گیا ہے مدعائے خط شوق
رقعہ وار اب اشک خونیں سے تو افشانی ہوئی
آنکھ اٹھا کر ٹک جو دیکھا گھر کے گھر بٹھلا دیے
اک نگہ میں سینکڑوں کی خانہ ویرانی ہوئی
مرتبہ واجب کا سمجھے آدمی ممکن نہیں
فہم سودائی ہوا یاں عقل دیوانی ہوئی
چاہ کر اس بے وفا کو آخر اپنی جان دی
دوستی اس کی ہماری دشمن جانی ہوئی
بلبل اس خوبی سے گل ہے سِیَّما سیمائے یار
تو عبث اے بے حقیقت غنچہ پیشانی ہوئی
شیخ مت یاد بتاں کو رات کا سا ذکر جان
یا صنم گوئی ہماری کیا خدا خوانی ہوئی
غنچۂ گل ہے گلابی پھول ہے جام شراب
توڑتے تو توڑی توبہ اب پشیمانی ہوئی
چشم ہوتے ہوتے تر کچھ سب بھری رہنے لگی
اب ہوئی خطرے کی جاگہ کشتی طوفانی ہوئی
دل تڑپتا تھا نہایت جان دے تسکین کی
بارے اپنی ایسی مشکل کی بھی آسانی ہوئی
جب سے دیکھا اس کو ہم نے جی ڈھہا جاتا ہے میرؔ
اس خرابی کی یہ چشم روسیہ بانی ہوئی