کیا جو عرض کہ دل سا شکار لایا ہوں

کیا جو عرض کہ دل سا شکار لایا ہوں
کہا کہ ایسے تو میں مفت مار لایا ہوں
کہے تو نخل صنوبر ہوں اس چمن میں میں
کہ سر سے پاؤں تلک دل ہی بار لایا ہوں
جہاں میں گریہ نہ پہنچا بہم مجھے دلخواہ
پہ نوحؑ کے سے تو طوفاں ہزار لایا ہوں
نہ تنگ کر اسے اے فکر روزگار کہ میں
دل اس سے دم کے لیے مستعار لایا ہوں
کسی سے مانگا ہے میں آج تک کہ جی لیوے
یہ احتیاج تجھی تک اے یار لایا ہوں
پھر اختیار ہے آگے ترا یہ ہے مجبور
کہ دل کو تجھ تئیں بے اختیار لایا ہوں
یہ جی جو میرے گلے کا ہے ہار تو ہی لے
ترے گلے کے لیے میں یہ ہار لایا ہوں
چلا نہ اٹھ کے وہیں چپکے چپکے پھر تو میرؔ
ابھی تو اس کی گلی سے پکار لایا ہوں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *