کیا کیا نہ ہم نے کھینچے آزار تیری خاطر

کیا کیا نہ ہم نے کھینچے آزار تیری خاطر
اب ہو گئے ہیں آخر بیمار تیری خاطر
غیروں کی بے دماغی بیتابی چھاتی داغی
یہ سب ستم اٹھائے اے یار تیری خاطر
کیا جانیے کہ ہے تو کیا جنس بیش قیمت
جاتے ہیں پگڑی جامے بازار تیری خاطر
اک بار تو نے آ کر خاطر نہ رکھی میری
میں جی سے اپنے گذرا سو بار تیری خاطر
میں کیا کہ آہ کافر دیں کے اکابروں نے
قشقے لگائے پہنے زنار تیری خاطر
گو دل دھسک ہی جاوے آنکھیں ابل ہی آویں
سب اونچ نیچ کی ہے ہموار تیری خاطر
ایک آن تیرے ابرو ایدھر جھکے نہ پائے
سو سو میں میں نے کھینچی تلوار تیری خاطر
کیا چیز ہے تو پیارے مفلس ہیں داغ تیرے
پیسے لیے پھرے ہیں زردار تیری خاطر
تجھ سے دوچار ہونا پھر آہ بن نہ آیا
دی جان میرؔ جی نے ناچار تیری خاطر
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *