کیونکے نیچے ہاتھ کے رکھا دل بیتاب کو

کیونکے نیچے ہاتھ کے رکھا دل بیتاب کو
وہ جو تڑپا لے گیا آسودگی و خواب کو
کم نہیں ہے سحر سے یہ بھی تصرف عشق کا
پانی کر آنکھوں میں لایا دل کے خون ناب کو
تھا یہی سرمایۂ بحر بلا پچھلے دنوں
چشم کم سے دیکھو مت اس دیدۂ پرآب کو
تو کہے تھی برق خاطف ناگہاں آ کر گری
اک نگہ سے مار رکھا ان نے شیخ و شاب کو
کیا سفیدی دیکھی اس کی آستیں کے چاک سے
جس کے آگے رو نہ تھا کچھ پرتو مہتاب کو
چاہتا ہے جب مسبب آپھی ہوتا ہے سبب
دخل اس عالم میں کیا ہے عالم اسباب کو
دم بخود رہتا ہوں اکثر سر رکھے زانو پہ میرؔ
حال کہہ کر کیا کروں آزردہ اور احباب کو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *