لبوں پر ہے ہر لحظہ آہ شرر بار

لبوں پر ہے ہر لحظہ آہ شرر بار
جلا ہی پڑا ہے ہمارا تو گھر بار
ہوئیں کس ستم دیدہ کے پاس یک جا
نگاہیں شرر ریز پلکیں جگر بار
کہو کوئی دیکھے اسے سیر کیونکر
کہ ہے اس تن نازک اوپر نظر بار
حلاوت سے اپنی جو آگاہ ہوں تو
چپک جائیں باہم وے لعل شکر بار
سبک کر دیا دل کی بے طاقتی نے
نہ جانا تھا اس کی طرف ہم کو ہر بار
گدھا سا لدا پھرتا ہے شیخ ہر سو
کہ جبہ ہے یک بار و عمامہ سر بار
مرے نخل ماتم پہ ہے سنگ باراں
نہایت کو لایا عجب یہ شجر بار
ہمیں بار اس در پہ کثرت سے کیا ہو
لگا ہی رہے ہے سدا واں تو دربار
یہ آنکھیں گئیں ایسی ہو کر در افشاں
کہ دیکھے سے آیا تر ابر گہر بار
کب اس عمر میں آدمی شیخ ہو گا
کتابیں رکھیں ساتھ گو ایک خر بار
جہاں میرؔ رہنے کی جاگہ نہیں ہے
چلا چاہیے یاں سے اسباب کر بار
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *