مندا ہے اختلاط کا بازار آج کل

مندا ہے اختلاط کا بازار آج کل
لگتا نہیں ہے دل کا خریدار آج کل
اس مہلت دو روزہ میں خطرے ہزار ہیں
اچھا ہے رہ سکو جو خبردار آج کل
اوباشوں ہی کے گھر تجھے پانے لگے ہیں روز
مارا پڑے گا کوئی طلبگار آج کل
ملنے کی رات داخل ایام کیا نہیں
برسوں ہوئے کہاں تئیں اے یار آج کل
گلزار ہو رہے ہے مرے دم سے کوئے یار
اک رنگ پر ہے دیدۂ خوں بار آج کل
تا شام اپنا کام کھنچے کیونکے دیکھیے
پڑتی نہیں ہے جی کو جفا کار آج کل
کعبے تلک تو سنتے ہیں ویرانہ و خراب
آباد ہے سو خانۂ خمار آج کل
ٹھوکر دلوں کو لگنے لگی ہے خرام میں
لاوے گی اک بلا تری رفتار آج کل
ایسا ہی مغبچوں میں جو آنا ہے شیخ جی
تو جا رہے ہیں جبہ و دستار آج کل
حیران میں ہی حال کی تدبیر میں نہیں
ہر اک کو شہر میں ہے یہ آزار آج کل
اچھا نہیں ہے میرؔ کا احوال ان دنوں
غالب کہ ہو چکے گا یہ بیمار آج کل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *