آسماں تک سیاہ کرتے تھے
اے خوشا حال اس کا جس کا وے
حال عمداً تباہ کرتے تھے
برسوں رہتے تھے راہ میں اس کی
تب کچھ اک اس سے راہ کرتے تھے
نیچی آنکھیں ہم اس کو دیکھا کیے
کبھو اونچی نگاہ کرتے تھے
ہے جوانی کہ موسم گل میں
جائے طاعت گناہ کرتے تھے
کیا زمانہ تھا وہ جو گذرا میرؔ
ہم دگر لوگ چاہ کرتے تھے