کیا بتاؤں دل کہاں ہے اور کس جا درد ہے

کیا بتاؤں دل کہاں ہے اور کس جا درد ہے
میں سراپا دل ہوں دل میرا سراپا درد ہے

یہ سمجھ لیں پہلے آپ اے حضرت عیسیٰ ذرا
کس کے دل میں درد ہے یہ اور کس کا درد ہے

جو چلا دنیا سے وہ رکھے ہوئے سینے پہ ہاتھ
میں سمجھتا ہوں کہ سب کے دل میں تیرا درد ہے

میرے چپ رہنے سے تو غافل ہے او ظاہر پرست
ظرف بھی اتنا ہی میں رکھتا ہوں جتنا درد ہے

ہر تڑپ پر قالب مردہ میں آ جاتی ہے روح
مجھ مریض ناتواں کی جان گویا درد ہے

بچ گئے تو انتہائے عشق میں لطف آئے گا
اور ابھی تو ابتدا میں انتہا کا درد ہے

اپنا اپنا حال کہہ لینے دو ناطق سب کو تم
جانتا ہے وہ کہ کس کے دل میں کتنا درد ہے

ناطق لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *