روشن ہوئے چراغ

غزل
روشن ہوئے چراغ اندھیرے ہوا ہوئے
اے عشق تیری بزم میں ہم کیا سے کیا ہوئے
اب اور کتنے سانحے درکار ہیں تجھے
اب بھی نہ تیرے دیدۂ ادراک وا ہوئے
سوچو کبھی کہ کس نے بگاڑا ہے سارا کھیل
وہ کون لوگ تھے جو اسیرِ انا ہوئے
اِک ایک کر کے ہم سے خفا ہو رہے تھے سب
اِک روز اپنے آپ سے ہم بھی خفا ہوئے
آئے کبھی سمجھ میں نہ راغبؔ دماغ کے
طوفانِ اضطراب جو دل میں بپا ہوئے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: یعنی تُو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *