دست تہی سے معرکہ ِحال سر کیا

دست تہی سے معرکہ ِحال سر کیا
ہر در سے ہم نے دست فشاناں گزر کیا
مقسوم میں قدم کے مسافت تھی بے حساب
پس ہم نے شہر و دشت سے بیروں سفر کیا
خلوت سوال کرتی ہے سینے کا اک خلا
بے خلوتی کو ہم نے ترے نام پر کیا
جامے میں جان کیسے پڑی اک عجب میں ہوں
کیوں لفظ نے بہ صورت معنی اثر کیا
تھا اس سے نیم گام جدائی کا فاصلہ
ہم نے اسی میں کود کو بسر عمر بھر کیا
سیل شعور میں تھا کہاں بے خودی کا ہوش
جو ہم نے جان کر نہ کیا، جان کر کیا
ان حالتوں کی یاد ترا حال خوش کہ جب
وہ شرم کیفیت میں رہا، ہم نے شر کیا
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *