رونق گرانِ کوچۂ جاناں چلے گئے

رونق گرانِ کوچۂ جاناں چلے گئے
سامانیانِ بے سروساماں چلے گئے
تھیں رونقیں کبھی جو شبوں کی وہ اب کہاں
خوابیدہ گردِ شہرِ نگاراں چلے گئے
کر تہنیت قبول، ترے آستانے سے
دشوار تر تھے جو، بہت آساں چلے گئے
لب جُنبشی کی اور ہی صورت ہو اب کوئی
بزمِ نوا کے پردہ شناساں چلے گئے
اب آپ صبح و شام مسیحائی کیجیے
وہ چارہ نا پذیر میاں جاں چلے گئے
اب دیر باوروں کا کیا کیجیے سُراغ
وہ زُود باورانِ اداب داں چلے گئے
اے سمتِ عنبرینِ شبِ انتظارِ یار
وہ انتظاریانِ صد ارماں چلے گئے
اس کا بدن عجب ہَوس انگیز ہے کہ ہے
ہم تو میاں چلے بھی گئے، ہاں چلے گئے
اُس ہندنی نے ایسی جفائیں کریں کہ بس
ہندو تھے ہم، سو ہو کے مسلماں چلے گئے
تھا جونؔ اس کا ناف پیالہ کہ مے کدہ
بس لڑکھڑا کے تشنہ لباناں چلے گئے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *