اب کہیں اوج پر نہیں تیرا خیال شہر میں
یہ جو کراہتے ہوئے لوٹ رہے ہیں شہر سے
خوب دِکھا کے آئے ہیں اپنا کمال شہر میں
شہرِ وفا میں ہر طرف سود و زیاں کا ہے شمار
لائیں گے اب کہاں سے ہم کوئی مثال شہر میں
حالتِ گفتگو نہیں عشرتِ آرزو نہیں
کتنی اُداس آئی ہے شامِ وصال شہر میں
خاک نشیں ترے تمام خانہ نشین ہو گئے
چار طرف ہے اُڑا رہی گردِ ملال شہر میں