محفل رسمیں برتی جاتیں، تھے آخر یکجا بیٹھے

محفل رسمیں برتی جاتیں، تھے آخر یکجا بیٹھے
سیکھے نہ ہم بیگانہ ادائی ، باہم بیگانہ بیٹھے
ایک نفس گزران میں آخر کیا فرقِ یار و اغیار
کس کی نشست اور کیسا حلقہ ؟ جو بھی جہاں بیٹھا بیٹھے
حالت کی بے ترکیبی نے دل کو کہیں کا بھی نہ رکھا
دل میں ہنسنا ،لب پر رونا ‘الجھے اور الجھا بیٹھے
آ کے گلے لگ جاتا گر وہ ہوتا حالت فہم کہ ہم
اس سے لڑ کر اپنا رشتہ اور کہیں ٹھہرا بیٹھے
دشت میں خاک اڑانے ہی سے لیلیٰ آن پہنچتی تھی
اب مجنونی شہر میں کی ھے ‘دیکھیں کیا خرچہ بیٹھے
اب ہم بچھڑے ہیں سائے سے ورنہ اب تک ایسا تھا
سر سے کسی کا سایہ اٹھا تو، برگد نیچے جا بیٹھے
باد حوادث حلقہ زناں ہے، میں ہوں غبار دشت گماں
بیٹھا ہوں تو حیرانی کر، ایک بگولا کیا بیٹھے
ایک خلش ایسی ہے دل میں جس کا درماں کوئی نہیں
کوئی خلش اب دل میں نہیں ہے ‘سب کچھ ہم نمٹا بیٹھے
یار ہماری رسوائی کے داد طلب ہوں اب ہم تو
شہروں شہروں رُسوا ہو کر ‘ اک گوشے میں آ بیٹھے
شہر کے جنگل والے مگن ہیں دفتی کی دیواروں پر
پیتل کے پھول اور پیڑوں کو قابوں میں لگوا بیٹھے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *