نشئہ ماہ و سال ہے، تاحال

نشئہ ماہ و سال ہے، تاحال
شوق اس کا کمال ہے،تاحال
نکہتِ گل ادھر نہ آئیو تو
جی ہمارا نڈھال ہے،تاحال
میرا سینہ چھلا ہوا ہے مگر
شوقِ بحث و جدال ہے،تاحال
اس عبث خانہِ حوادث میں
ہر جواب اک سوال ہے،تاحال
بڑھ رہا ہوں زوال کی جانب
دل میں زخمِ کمال ہے،تاحال
کب کا تاراج ہوچکا ہوں مگر
ذہن میں اک مثال ہے،تاحال
زخمِ کاری کے باوجود
ہوسِ اندمال ہے،تاحال
دامنِ آلودگی کے بعد بھی تو
آپ اپنی مثال ہے ،تاحال
ہے یہ صورت کہ اشتیاق اس کا
بے امیدِ وصال ہے،تاحال
تھا جو شکوہ سوہے وہ تاایں دم
وہ جوتھااک ملال ہے،تاحال
زندگی ہے لہولہان مگر
رنگ بے خدوخال ہے،تاحال
ہے سوادِ ختن غزل میری
تو غزل کا غزال ہے،تاحال
لالہ رویا،شکن شکن مویا
تجھ کو پانا محال ہے،تاحال
کتنے چارہ گروں نے زحمت کی
پر وہی میرا حال ہے،تاحال
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *