نہ دو نوید، خوش انجام ڈر گئے ہیں یہاں

نہ دو نوید، خوش انجام ڈر گئے ہیں یہاں
دلوں پہ وَصل کے صدمے گذر گئے ہیں یہاں
جُدا جُدا رہو یارو، جو عافیت ہے عزیز
کہ اختلاط کے جلسے بکھر گئے ہیں یہاں
ہے تیر جبر میں وہ لطفِ اختیار کے بس
تمام حُکم دلوں میں اُتر گئے ہیں یہاں
عجب طلسم ہے کچھ شہرِ سر شناسی کا
اُدھر جو پاؤں اُٹھے تو سر گئے ہیں یہاں
امیرِ شہر بہت ناسپاس ہے ترا شہر
ہوا ہے جشن تو چہرے اُتر گئے ہیں یہاں
جو دوسروں کے تکلم میں جان ڈالتے تھے
وہ لوگ اپنے ہی ہونٹوں پہ مر گئے ہیں یہاں
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *