تاروں کے لیے بہت کڑی تھی

تاروں کے لیے بہت کڑی تھی
یہ رخصت ماہ کی گھڑی تھی
ہر دل پہ ہزار نیل نکلے
دنیا کسے پھول کی چھڑی تھی
واں ڈھیر تھا پتھروں کا تیار
یاں پھول کی ایک پنکھڑی تھی
دریا میرے سامنے تھا لیکن
میں پیاس سے جاں بلب کھڑی تھی
دیکھوں گی میں آج اس کا چہرہ
کل خواب میں روشنی بڑی تھی
تھا جھوٹ امیر و تخت آرا
سچائی صلیب پر گڑی تھی​
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *