جز طلب اس سے کیا نہیں ملتا

جز طلب اس سے کیا نہیں ملتا
وہ جو مجھ سے ذرا نہیں ملتا
جان لینا تھا اس سے مل کے ہمیں
بخت سے تو سوا نہیں ملتا
زخم کھلنے کے منتظر کب سے
اور لمس ہوا نہیں ملتا
کس قدر بد نصیب بادل ہیں
جن کو دست دعا نہیں ملتا
میرا مسلک نہیں قصاص مگر
کیا مجھے خوں بہا نہیں ملتا
بستایں آخری دموں پر ہیں
اور حرف شفا نہیں ملتا
ایک آسیب کے مکان میں ہوں
اور رد بلا نہیں ملتا​
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *