ابھی جنگ ہے

ابھی جنگ ہے
ابھی جنگ ہے
ابھی جنگ ہے مرے کونے کونے چھڑی ہوئی
کسی آدھی لاش پہ ہنس رہا ہے دھواں کوئی
کسی سر پہ روتی ہیں بارشیں
کوئی طاق زد میں ہے
تو کہیں کوئی طاقچہ
کئی بیٹے آگ کی خونخوار پناہ میں
کئی مائیں دیکھ رہی ہیں اپنی دعاؤں کو
جو بدل رہی ہیں کسی بڑے ہی نحیف شخص کی آہ میں
کسی توپ پر
کوئی نام لکھا گیا تو لکھا رہا شکست کے روگ تک
کسی ٹینک کو
کئی راستوں کی تلاش سونپی گئی ہے آنکھوں کو پھوڑ کر
کہیں بج رہی ہے کسی کی موت کی بانسری
تو کہیں خموشی لرز رہی ہے مچان میں
مرے بادشاہ کا حکم ہے تو شہید ہے
مجھے غازی بننے کا شوق تھا
مری ماں مرے لیے خواب بنتی تھی رنگ کے
اسے میرے عکس میں شہر دکھتی تھی زندگی
مرے بادشاہ کا حکم
یہ مجھے کیسی غار کی تیرگی میں گرا گیا
میں شہید ہوں تو مرے مزار کے سب چراغ کہاں گئے
مری ماں کی زخمی دعاؤں میں
جو مرے سفر کے سراغ تھے وہ کہاں گئے
یہاں جس کسی سے بھی پوچھتا ہوں
لبوں پہ انگلی دھرے ہوئے یہی کہہ رہا ہے کہ
شیش۔۔۔۔۔۔
چپ رہو، چپ رہو
ابھی چپ رہو
ابھی جنگ ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *