اپنی وابستگی نو سے بھی کٹ کر آتے

اپنی وابستگی نو سے بھی کٹ کر آتے
ہم کو کیا ایسی پڑی تھی کہ پلٹ کر آتے
چھوٹی سے چھوٹی پریشانی بھی یاد آئے گی
ہم کو معلوم نہ تھا ورنہ نمٹ کر آتے
ہم کو یہ کھیل اھورے نہیں اچھے لگتے
ہم اگر آتے تو پھر بازی الٹ کر آتے
روح کے ساتھ نہ دینے سے یہ خواہش ہی رہی
ہم ترے مد مقابل کبھی ڈٹ کر آتے
تجھ سے دو طرفہ عداوت تھی بہت بچپن سے
کیسے ممکن تھا ترے سامنے گھٹ کر آتے
جیسے قیدی کوئی اپنوں سے بچھڑتا ہے کبھی
میرے آنسو مری پلکوں سے لپٹ کر آتے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *