آئینے آنکھوں تلے جتنے بھی تھے

آئینے آنکھوں تلے جتنے بھی تھے
وقت نے سب پر خراشیں ڈال دیں
اب تو سب کچھ بھولتا جاتا ہوں میں
جو کبھی اترا نہیں تھا روح سے
اب اسے بھی بھولتا جاتا ہوں میں
چاند جو کھڑکی میں آ کے
کسمساتا گنگناتا تھا
سردیاں جو
میرے بستر میں ہمیشہ رات بھر سینے سے لگ کے
جاگتی تھیں
بارشیں جو آنکھ کے سنگ
یک زباں ہو کر برستی تھیں
جو ساون
ڈال کے بانہیں گلے میں
دیر تک تنہائیوں کا پرسہ دیتا تھا
اسے بھی بھولتا جاتا ہوں میں
اب تو سب کچھ بھولتا جاتا ہوں میں
بند آنکھوں کے دریچوں کے تلے
سب آئینوں پر وقت نے گہری خراشیں ڈال دیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *