بہروپیے

بہروپیے
زاغ تیری ذات دھبہ اصل پر
اور ترا ہر فعل تیری ذات میں ڈھلتا ہوا
زاغ تیری دم بہ دم مکار خصلت بزدلی کی آگ میں پلتی ہوئی
اور بظاہر
جگمگاتی سرخ رو بہروپ میں
زاغ تیری جون سو پردوں میں گم
اور ترا کردار پرتوں میں نہاں ہے
زاغ پھر بھی
روپ کی تبدیلیوں سے اصل چھپتا ہے کہاں
اور آنکھ کے کاجل سے پتلی تو بدل سکتی نہیں
نام کوئی بھی بدل لے
دام کوئی بھی بچھا لے زاغ
تیری ذات دھبہ اصل پر
داغ جیسی بھی جگہ ہو داغ ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *