جان بھی لے گا مگر اس نے بتانی تو نہیں

جان بھی لے گا مگر اس نے بتانی تو نہیں
ناگہانی مری جانب کہیں آنی تو نہیں
میں نے سمجھایا ہے دل کو ترے بارے میں بہت
اس نے سن لی ہے مری بات پر مانی تو نہیں
اس نے چاہا ہے مجھے اپنے خدا سے بڑھ کر
میں نے یہ بات زمانے کو بتانی تو نہیں
دِکھ رہی ہے جو مجھے صاف تری آنکھوں میں
تُو نے یہ بات کہیں مجھ سے چھپانی تو نہیں
جانے پھر آئے نہ آئے یہ ترے وصل کی رات
بیت جائے گی مگر ہم نے بتانی تو نہیں
یہ جو ہر موڑ پہ آملتی ہے مجھ سے فرحت
بد نصیبی بھی کہیں میری دیوانی تو نہیں
ہم پہ جو بیت گیا بیت گیا تیرے بغیر
دل پہ جو گزری ہے وہ تجھ کو سنانی تو نہیں
سیدھی آ لگتی ہے جو ہجر کے زخموں پہ مجھے
یہ کوئی ٹیس مرے دل میں پرانی تو نہیں
یہ جو آتے ہوئے گھبراتی ہے رونق مجھ پر
کہیں ویرانی کے موسم پہ جوانی تو نہیں
بجھ گئی ہے جو ترے جانے سے میرے اندر
میں نے یہ شمع کسی طور جلانی تو نہیں
جس طرح چھوڑا ہے رستے میں اچانک تم نے
میں نے یہ بات کبھی دل سے بھلانی تو نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دو بول محبت کے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *