جبر و قدر

جبر و قدر
راستہ پاؤں کی تقدیر میں ہے
کچھ کہو پھر بھی
اگر کچھ بھی نہ بولو پھر بھی
ساکت و جامد و خاموش، مقید بے جا
زندگی اپنی وہی ہے کہ جو تقدیر میں ہے
ہاتھ کندھوں سے لٹکتے ہیں مگر
مانتے کچھ بھی نہیں
ہم کہ سب آنکھیں کھلی رکھتے ہوئے بھی شاید
جانتے کچھ بھی نہیں
آرزو حلقہ زنجیر میں ہے
دل بظاہر تو نظر آتا ہے آزاد مگر
زیر و بم
اور کسی حیطہِ تدبیر میں ہے اور
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر
جان لو
ہم ہی سبھی کچھ ہیں یہاں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *