جراتِ غم نے کیا ہے پر جوش

جراتِ غم نے کیا ہے پر جوش
ورنہ ہم بزدلی و خوف سے جاگے کب تھے
ہم تو بے حد و کراں خوف میں یوں سوئے تھے جیسے کبھی جاگیں گے نہیں
رات آئے گی تو پھر نیند نہیں آئے گی
نیند آئے گی تو پھر خوف سے اٹھ بیٹھیں گے
جس طرح جنگ میں ہارے ہوئے اور ٹو ٹے ہوئے شاہسوار
روز مرہ کی شکستوں نے اپاہج ہی کیا ہے سب کو
جیتتے رہتے تو لڑتے رہتے
ہارنے والے مسلسل تو کبھی جنگ کے قابل ہی نہیں رہ جاتے
ہم نے کچھ روز بہت خندقیں کھودیں تھیں محاذوں پہ مگر
مٹیوں سے بھی کوئی زخم نکل آتے ہیں
ٹھیک کہتے ہیں کہ مفتوح زمینوں سے تو فصلوں کی جگہ
ہڈیاں اگ آتی ہیں
غم نہ ہوتا تو کسی اپنی ہی چنوائی ہوئی جیل میں سڑتے رہتے
غم نہ ہوتا تو مزاروں سے نکلتے کیسے
ہم جو خود اپنے ہی زندانوں میں محصور ہوئے
ذات زندان ہے
بکھرے ہوئے انسانوں کی
اپنے ہی آپ سے ڈرتے ہیں زمانے والے
ورنہ اوروں کو ڈراتے کیوں کر
جراتِ غم نے کیا ہے پر جوش
ورنہ ہم اٹھ کے، تڑپ کے کبھی بھاگے کب تھے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *