جلتا رہا کنارا سمندر کے ساتھ ساتھ

جلتا رہا کنارا سمندر کے ساتھ ساتھ
اِک شام اک ستارہ سمندر کے ساتھ ساتھ
جاتا ہے دور دور تلک تم کو ڈھونڈنے
اک راستہ ہمارا سمندر کے ساتھ ساتھ
تم چاند بن کے دور کہیں پار کھو گئے
دل نے تمہیں پکارا سمندر کے ساتھ ساتھ
اک گیت رہ گیا ہے تری یاد کا یہاں
کشتی میں پارہ پارہ سمندر کے ساتھ ساتھ
بے چین کر گیا ہے مجھے پانیوں کے بیچ
موسم ترا اشارہ سمندر کے ساتھ ساتھ
ناراض ہو گئی ہے ہوا بادبان سے
پھرتا ہوں مارا مارا سمندر کے ساتھ ساتھ
لمحہ محبتوں کا مری جان پھر کبھی
ملتا نہیں دوبارہ سمندر کے ساتھ ساتھ
گمنام ہو گیا ہے سفر اک ترے بنا
جیون لگے اُدھارا سمندر کے ساتھ ساتھ
بولو! کہ دل میں جو بھی ہے طوفان نہ بنے
چُپ نا رہو خدارا سمندر کے ساتھ ساتھ
کوئی تو ہے کہ جس نے ہمیشہ زمین پر
ساحل بھی ہے اتارا سمندر کے ساتھ ساتھ
گہرائیاں پسند رہیں ہیں مجھے سدا
لگتا ہے تُو بھی پیارا سمندر کے ساتھ ساتھ
فرحت گلے لگا کے ہوا جس کو رو پڑے
میں ہوں وہ غم کا مارا سمندر کے ساتھ ساتھ
اتنی اداسیوں میں کنارے کو کیا کریں
ہوتا کوئی ہمارا سمندر کے ساتھ ساتھ
پتوار چھوڑ جاتے ہیں، بازو بھی ناؤ بھی
رہتا نہیں سہارا سمندر کے ساتھ ساتھ
لہروں میں لے کے کھیل رہا ہے ہمارا دل
رنج و الم تمہارا سمندر کے ساتھ ساتھ
جو بھی تھا دشت برد ہوا مدتیں ہوئیں
کچھ بھی نہیں ہمارا سمندر کے ساتھ ساتھ
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *