جو نہ جانے روح کی کس منڈیر سے جھانک لے

جو نہ جانے روح کی کس منڈیر سے جھانک لے
اسی خاص حسن کی آرزو میں ہے زندگی
ترے دل میں فتح دمک رہی تھی مرے لیے
ترے رخ پہ کوئی عجیب رنگ تھا پیار کا
لب دشت دل بڑی پیاس ہے لب دشت دل
بڑی خشک ہیں تری بارشیں بڑی خشک ہیں
مرے آسماں کوئی بات کر مرے آسماں
ترے اختیار کی چپ میں راز کی موت ہے
تجھے بھید بھولنے ہوں گے اپنے سکوت کے
تجھے آج کہنا پڑے گی نطق کی داستاں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *