دکھ ایسا دریا ہے جو

دکھ ایسا دریا ہے جو
آنکھ کے رستے بہتا ہے
تنہائی کی بات نہ کر
سارا شہر ہی تنہا ہے
غم میرے دروازے پر
دھرنا مار کے بیٹھا ہے
ہم نے اپنا آپ سدا
اس کے کھوج میں پایا ہے
کالا درد وچھوڑے کا
دور دور تک پھیلا ہے
دل کو دیکھ کے روتا ہوں
کتنا بھولا بھالا ہے
رونے والے بھول گئے
کون کہاں کب کھویا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – عشق نرالا مذہب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *