دلوں کو توڑتے کیوں ہو

دلوں کو توڑتے کیوں ہو
مہاریں موڑتے کیوں ہو
تعلق توڑ دینے ہیں
تو پھر یوں جوڑتے کیوں ہو
اگر انگلی پکڑنی ہے
تو آخر پھوڑتے کیوں ہو
دِوانو! پتھروں سے ہی
سروں کو پھوڑتے کیوں ہو
اگر پھر لوٹ آنا ہے
تو نگری چھوڑتے کیوں ہو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *