رات اور ریت کی عادت پہیلی تو نہیں

رات اور ریت کی عادت پہیلی تو نہیں
آنکھ میں پڑنے کے انداز جدا ہیں ان کے
رات آنکھوں سے اترتی ہوئی دل تک پہنچے
ریت چپ چاپ بدن چاٹتی ہے
اپنے بیمار سراپا کی قسم
ریت بن بن کے ترا غم مجھے آلگتا ہےدریاؤں کی لہروں کی طرح
رات بن بن کے مری روح میں آ پڑتا ہے
اتنی خاموشی سے بربادی نے گھیرا ہے مجھے
جیسے پانی در و دیوار کو کھا جاتا ہے
جیسے ویرانی دلِ زرد کو ڈس جاتی ہے
جیسے تنہائی کسی شور میں مر جاتی ہے
یوں اچانک ترے لہجے سے مجھے خوف آیا
جیسے خاموشی ہی خاموشی سے ڈر جاتی ہے
جیسے لڑکی کوئی محبوب سے نالاں ہو کر
کس قدر اجڑی ہوئی لوٹ کے گھر جاتی ہے
بادشاہوں کی طرح دل نے اسے پالا تھا
جو گداگر کی طرح بوجھ بنا پھرتا ہے
ہم اسے کچھ بھی نہ کہہ پاتے تو
لوٹ جاتے تھے سدا بے بس و مجبور بہت
بے سبب روتے چلے جانے کا کوئی تو سبب ہو گا ہی
اشک پانی تو نہیں ہے کہ نظر آئے بھٹکتا پھرتا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *