رات ہم دیر تلک ساتھ رہے

رات ہم دیر تلک ساتھ رہے
وصل کی بانہوں میں بانہیں ڈالے
آبشاروں کے حسیں شانوں سے
ابر بن بن کے ڈھلکتی ہوئی پھواروں میں بھگوتے ہوئے مخمور بدن
درد کو زیب نہیں دیتا کہ ایسے میں ہمیں یاد آتا
ورنہ یہ کون سا مشکل ہے کہ ہنستے ہوئے لوگوں کو رلایا جائے
یاد کی گلیوں میں ہم چلتے ہوئے رکتے تھے
کوئی بے ساختہ حیرت
کوئی خاموش مکاں
کوئی خوشبو، کوئی یکلخت، چھچھلتی ہوئی آواز
کسی ساز کی لے
کسی بیماری کے عالم میں عیادت کی مسیحائی کی رونق میں گھرے
رات ہم دیر تلک ساتھ رہے
ایک دوجے سے چھپاتے ہوئے گمنام رفاقت کا بھرم
ایک دوجے کو بتاتے ہوئے منہ زور جدائی کا ستم
پھول اور بھول کے مابین یہ سب دھول کہاں سے آئی
کسی دھوکے کا کرم
صاف صحراؤں میں پازیب کہاں سے آئی
ہم نے دیکھا نہ کبھی غور کیا
خود فریبی کے سوا کون بدل سکتا ہے
حالات کسی اجڑے ہوئے صحرا کے
رات ہم دیر تلک ساتھ رہے
حافظے اور تمنا میں جہاں فرق نہیں
ایک ایسا بھی جہاں ہے آباد
رات ہم دیر تلک ساتھ رہے
وصل کی بانہوں میں بانہیں ڈالے
ہجر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *