زمین اور اس کی گولائی

زمین اور اس کی گولائی
ہونٹوں پر ہجوم باندھا تو تنہائی رو پڑی
کانوں میں شور اتار کے گم کر دیا تو خاموشی نے دل کو چیر کر رکھ دیا
فرار تو شاید اپنے آپ سے ہی ہوتا ہے
فرق صرف اتنا سا ہے
پہلے پانی میں سانس لے رہا تھا اور اب خلا میں
یہ بند دروازے ہی ہیں جنھوں نے کھلی فضاؤں کا روپ دھار رکھا ہے
میں لوٹ آیا ہوں ہر ایک سمت سے
زخموں پر انگلیاں رکھنا تمہیں کتنا اچھا لگتا تھا
اور میرا صبر بھی
تو آؤ
آج پھر خراشیں خراشیں کھیلتے ہیں
میں ویسے ہی چپ بیٹھا رہوں گا
اور تم کھیلتے رہنا
کھیلتے رہنا
دیر تک، دیر گئے تک
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *