سالخوردہ صحراؤں کے بیچ

سالخوردہ صحراؤں کے بیچ
مرے اندر کا بے مہار انسان
وہ کہ جس کے ہاتھ میری تمام مہاریں ہیں
اور جو میری منزلوں تک کو نکیل ڈال کے رکھتا ہے
مہر اور بے مہری کے درمیان
تنی ہوئی لچکیلی تار کی طرح
اور سمندر کی بلا خیز لہروں پہ ڈولتی ہوئی
مادر پدر آزاد ناؤ کی طرح
اور ہوا کی طرح
جسے اپنی مرضی کی مالک ہونے کے باوجود
فضاؤں میں پیدا ہو جانے والے خلا کی طرف مجبوراً دوڑنا پڑتا ہے
روٹی کے ٹکڑوں کی انگلیوں سے لپٹے ہوئے پیٹ
اور جدائی کے غم پہ اٹکے ہوئے آنسوؤں کی طرح
ایک ویرانے سے دوسرے ویرانے تک
اختیار اور بے اختیاری کی نوکیلی سلاخوں میں
پروئے جا چکنے کے بعد
سانسوں کے آخری کنارے تک
ڈوبنا اور ابھرنا
جس کا مقدر ہو چکا ہو
میرے بلکہ سب کے اندر کا شتر بے مہار
جسے رسی تڑائے عرصہ ہو چکا ہو
اور جسے آزادی کے ساتھ کھلم کھلا
اپنی بڑھتی ہوئی بھوک اور پیاس کے پیچھے
بھاگنا پڑ رہا ہو
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *